👈 _*ایک بھائی کا سوال*_
*اگر بیوی ہی خاوند کے حقوق کا خیال نہ رکھیں اور جب گھر آئے تو اپنی بیماری کو سامنے رکھ کر اس کی پریشانی میں اضافہ کر دے تو اس کا کیا بنے گا؟*
*جواب:*
میاں اور بیوی کا رشتہ عظیم رشتہ ہے اور یہ پیار و محبت کے احساسات کا نام ہے.
اللہ تعالیٰ نے خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کا نفس قرار دیا
جس کو آسان الفاظ میں اس طرح سمجھیے کہ یہ ایک ہی جسم کے دو عضو ہیں. اور ان کی خوشیاں اور غمیاں ایک سی ہیں. اگر جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہو گا تو پورا جسم بے چین اور تکلیف میں ہو گا.
اس لیے یہ جسم اگر سکون اور اطمینان چاہتا ہے تو دونوں اعضاء کا صحیح اور تندرست ہونا ضروری ہے. ایسے ہی اگر میاں بیوی گھر میں راحت اور سکون چاہتے ہیں تو دونوں کو ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے.
خاوند کو بیوی پر فوقیت دی گئی ہے اور اس پر خاوند کی تابعداری شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے لازم کی گئی ہے.اور خاوند کو سکون اور محبت بھرا ماحول فراہم کرنا یہ بیوی کی اولین ترجیح ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
*وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ*
*اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں*
(الروم:21)
اس لیے عورت پر لازم ہے کہ اللہ کے فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تکالیف کو خاوند کی تکالیف پر فوقیت نہ دے. اگر وہ خاوند کو سکون اور محبت دے گی اور اس کے گھر میں داخل ہونے اور ملنے پر محبت بھرے الفاظ اور خوشگوار چہرے سے ملے گی تو یہ اس کے لیے بھی اجر کثیر اور راحت و سکون کا ذریعہ ہے. کیونکہ اگر خاوند کے گھر داخل ہوتے ہی وہ اپنا دکھڑا سنانے بیٹھ جائے گی تو شوہر جو باہر کی پریشانیوں اور تکلیفوں سے دوچار سکون کی خاطر گھر لوٹتا ہے اور سامنے سے ایسا استقبال ہو تو بدسکونی کی فضا پیدا ہو جائے گی. عورت کو چاہیے کہ کچھ دیر انتظار کر لے خاوند کو اچھے موڈ میں آنے دے اور آرام کرنے کے بعد اس کے سامنے اپنی پریشانی کو رکھے تو اس کا مسئلہ بھی حل ہو گا اور سکون کی فضا بھی قائم ہو گی.
اور خاوند کو بھی چاہیے کہ میاں بیوی کے اس رشتے میں اعتماد کی فضا کو باحال رکھے اور بیوی کی پریشانیوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سنے اور ان کا بہترین حل پیش کرے بجائے اس کے کہ وہ غصہ اور بے رغبتی کا اظہار کرے اور آگ بگولا ہو کر باہر نکل جائے.. یاد رکھیں اگر آپ اس رشتہ میں سکون چاہتے ہیں تو آپ کو بھی اپنے شریک حیات کو سکون مہیا کرنا ہو گا اس کی پریشانیوں کو سمجھنا اور ان کا بہتر حل کرنا ہو گا.
اس میں بہتر یہ ہے کہ ہفتے یا دن میں کوئی وقت رکھا جائے جب ایک دوسرے کے مسائل کو نرمی سے سنا جائے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے بجائے اس کے کہ شہر یا بیوی اپنے اپنے حقوق کے حصول کا رونا روتے رہیں .واللہ أعلم
روز قیامت ہر شخص سے یہ سوال تو ہو گا کہ جو حقوق تمہارے ذمہ تھے کیا تم نے وہ ادا کیے یا نہیں؟؟
یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ جو حقوق تمہارے تھے وہ تمہیں ملے یا نہیں.اس لیے خاوند اور بیوی دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے حقوق ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہ برتیں.
*╔════❖📖❖════╗*
• _*📚💦اردو تحاریر💦📚*_
*╚════❖📖❖════╝*
Wah wah
جواب دیںحذف کریں