*مدارس کی بندش اور امتحان کا معمہ،* اصل ذمہ دار کون؟
تحریر؛ *محمد سعد سعدی* 
کووڈ 19 کی وبا سے جہاں زندگی کے بہت سے شعبے متاثر ہوئے ہیں وہاں ایک اہم شعبہ تعلیمی اداروں کا بھی ہے جو اس وقت تک بندش کی صورت حال سے دو چار ہیں. اس بندش کا دورانیہ جوں جوں بڑھتا جا رہا ہے، بے چینی اور اضطراب کی کیفیت بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے. خاص طور پر دینی مدارس کی بندش اور امتحانی نظام کے حوالے سے طلباء کرام حد سے اضطراب کی کیفیت میں نظر آ رہے ہیں اور مورد الزام وفاق کو ٹھہرا رہے ہیں. اس ضمن میں ایک دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں.
پہلی بات یہ ہے کہ وفاق المدارس کے اکابرین مدارس کو کھولنے کے حوالے سے شروع سے ہی فکر مند ہیں اور رمضان المبارک کے آخری عشرے سے ہی مشاورت کا آغاز ہو چکا تھا. اس مشاورت میں وفاق کے اکابرین کے علاوہ دیگر جید اور نامور شخصیات بھی شامل رہی ہیں، جن میں بطور خاص حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم اور قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب زید مجدہم شامل ہیں. وفاق کے دیگر بورڈ کو بھی تمام تر فیصلوں میں اعتماد میں لیا گیا. 
دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت ریاست سے مزاحمت کر کے وفاق کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا، بلکہ باہمی مشاورت سے ہی کوشش اور تگ و دو کر کے اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے. اس سلسلے میں وفاق المدارس کا وفد مسلسل وزراء سے میٹنگ کر رہا ہے اور بار بار یہی مؤقف پیش کر رہا ہے کہ جب ایس او پیز کے تحت باقی ادارے کھولے جا سکتے ہیں تو ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی ادارے کھولنے میں کیا حرج ہے؟ دوسری طرف سے مسلسل ٹال مٹول اور تاخیر کی صورت میں وفاق عملا کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں. ہم یہی سمجھتے ہیں کہ سرکاری ادارے دانستہ طور پر اس معاملے کو تاخیر کا شکار کرتے چلے جا رہے ہیں اور وفاق کی حیثیت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور ہمارا اعتماد توڑنا چاہتے ہیں، طلبہ کے انداز سے یہی لگ رہا ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو رہے ہیں. اس لئے گزارش یہ ہے کہ اگر آپ کو مطعون کرنا ہی ہے تو اس اصل قوت کو کیجئے جو اس تمام تر مراحل کی تکمیل میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور غیر سنجیدگی دکھا رہی ہے نہ یہ کہ ہم یہ سارا ملبہ اپنے اکابرین اور بزرگوں پہ ڈال دیں.
آخر میں طلبہ سے گزارش یہ ہے کہ اپنے ذہن ان تمام تر اضطراب اور بے چینی کی کیفیت سے نکالیں، ایک مومن کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ وہ آزمائش میں پریشان ہو اور ذہنی طور پر مفلوج ہو جائے بلکہ وہ ان حالات میں زیادہ اہتمام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور دعاؤں کا اہتمام کرتا ہے. دعا کے متعلق تو آپ سب جانتے ہیں کہ یہ وہ واحد ہتھیار ہے تو تقدیر کو بدل سکتا ہے، تو رجوع الی اللہ کا اور دعاؤں کا اہتمام کریں. دوسرا اب امتحان کا ہونا تو یقینی ہو چکا ہے، آپ اپنا نظام الاوقات بنائیے اور تیاری کا سلسلہ شروع کر دیں. جب جو بھی فیصلہ اپنے بڑوں کی طرف سے آئے بصد چشم قبول کر لیجیے لازمی نہیں کہ وہی فیصلہ ہو جو میں اور آپ چاہتے ہیں، اگر آپ اس سے اختلاف کرنا چاہیں تو پھر ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف کرنا آپ کا حق ہے لیکن جس طرح مسلسل وفاق کو اور وفاق کے اکابرین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ طریقہ درست نہیں ہے، اگر آپ نے مطعون کرنا ہی ہے تو پھر وفاق کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے اسلام اور دینی جماعتوں کے قائدین کو بھی مطعون کیجئے جو اس مشاورت کا روز اول سے حصہ ہیں.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں